شیخ بابا فرید الدین گنج شکر: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

شیخ بابا فرید الدین گنج شکر: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور اشاعت اسلام کے اول زمانہ سے ہی یہ سرزمین صوفیاء کرام کا مسکن رہی ہے۔ صوفیاء کرام کی توجہات، اخوت و محبت کا درس، عدل و مساوات کی تعلیمات، امن و سلامتی کی دعائیں، غریب پروری، ہمدردی کے جذبات کی وجہ سے نفوس قدسیہ کے یہ سالار یہاں کے بسنے والوں کے قلوب میں بہت جلد گھر کر گئے۔ برصغیر میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری نے اسے مہمیز لگائی اور بندگانِ خدا کو اسلام کے آفاقی پیغام سے روشناس کرایا۔ آپ کی تعلیمات کو برصغیر میں پھیلانے کیلئے رب ذوالجلال نے آپ کو ایسے پاکیزہ صفات کے حامل پیروکار عطاء کئے جنہوں نے گوشہائے عالم میں آپ کے طریق کار کو اپناتے ہوئے اشاعت اسلام اور ترویج دین کے کام کو جاری رکھا۔ آپ کے خلیفہ خاص شیخ قطب الدین بختیار کاکی کے دست مبارک پر شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت و خلافت اسی سلسلہ کی عظیم کڑی ہے۔ شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کو برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کے قیام و استحکام اور اس کے ذریعہ خلق خدا کی راہبری و راہنمائی میں آدم ثانی تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جن دو عظیم شخصیات کی تعلیمات اور ان کے کشف و کرامات کے داستانیں زبان زد عام و خاص ہیں وہ سلطان الاولیاء حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری (دونوں حضرات کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں)  کی ذات بابرکت ہے، اور یہ دونوں ہستیاں شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے در سے تصوف و سلوک کے لعل و جواہر اور اسلامی تعلیمات کے ہیرے موتی چننے والے اور ان کے دامنِ ارادت سے وابستہ رہنے والے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں شیخ بابا فرید الدین گنج شکر کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ولادت با سعادت 

شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم مشہور اسلامی بادشاہ سلطان محمود غزنوی کے بھانجے ہیں۔ آپ کی پیدائش کے سن میں قدرے اختلاف ہے لیکن مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ( تاریخ دعوت وعزیمت) میں سن پیدائش 569 ہجری کو قرار دیا ہے۔ آپ کا نام مسعود اور لقب فرید الدین ہےلیکن آپ مشہور بابا فرید الدین کے نام سے ہیں۔ آپ کے والد کا نام شیخ جمال الدین ہے۔ آپ کے جدِ امجد قاضی شعیب رحمۃ اللہ علیہ تاتاریوں کی یورش کے بعد کابل سے لاہور تشریف لائے، یہاں قصبہ کنہیوال میں قیام کے دوران مسند قضا اور جاگیری کے عہدہ کو شرف بخشا۔ اسی شہر میں آپ کی پیدائش ہوئی ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب مذہب اسلام کے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ 

تعلیم و تربیت 

شیخ بابا فرید الدین  علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ بچپن سے ہی حصول علم کی چنگاری سینے میں سلگ رہی تھی۔ جوں جوں عمر میں اضافہ ہوتا گیا، شوق و ذوق میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔ ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کے بعد مزید تعلیم کیلئے ملتان تشریف لے گئے، یہاں آپ نے قاضی منہاج الدین سے عربی کی کتابوں کے علاوہ فقہ کی کتابیں بھی پڑھیں۔ انہیں ایام میں شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی 584 ہجری میں زیارت ہوئی۔ عمر کی اس دہلیز پر آپ شیخ کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ ساتھ چلنے کیلئے تیار ہوگئے، لیکن شیخ نے منع فرمایا، پہلے ظاہری علوم کے تکمیل کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ بے علم درویش بعض اوقات خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

بابا فرید الدین گنج شکر شیخ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں

شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شیخ بابا فرید الدین گنج شکر  نے زندگی کے مزید پانچ سال علوم و فنون کی تعلیم حاصل کرنے میں گزارا۔ ان ایام میں آپ نے حصول علم کیلئے ملتان کے علاوہ قندھار کا بھی سفر کیا اور یہاں کے صاحب فضل وکمال علماء کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب تصوف و سلوک کی وادی میں قدم رکھنے سے قبل دینی علوم میں دسترس حاصل کرنا ضروری تھا، خلافت و اجازت انہیں مرحمت فرمائی جاتی تھی جو متبع سنت اور قرآن و حدیث کے علوم سے واقف ہو۔
علوم ظاہریہ کی تکمیل کے بعد شیخ بابا فرید الدین شیخ قطب الدین بختیار کاکی کے دربار میں  پہنچے۔ شیخ کو اپنے اس مرید میں وہ سارے اسرار و رموز نظر آرہے تھے جو بعد کے زمانے میں ان کے ہاتھوں انجام دیئے جاتے۔ شیخ نے مکمل توجہ سے باطنی علوم کی تعلیم دی اور ولایت کے اس مقام تک لے گئے جسے عزیز مقتدر نے ان کیلئے مقدر کیا تھا۔
دہلی میں قیام کے دوران حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ دہلی تشریف لائے، آپ نے شیخ فرید الدین کے پیشانی کے نور کو بھانپ لیا۔ آپ نے اپنے خلیفہ شیخ قطب الدین بختیار کاکی سے ارشاد فرمایا، بابا بختیار، تم نے بڑے شہباز کو مقید کیا ہے۔ ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ یہ ایک شمع ہے جو درویشوں کے گھر کو منور کرے گی اور اپنے وقت کا غوث و قطب ہوگا۔ 

شیخ کا وصال اور شیخ بابا فرید الدین کی دہلی سے روانگی

 شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے وقت آپ ہانسی میں شیخ جمال الدین کے ہمراہ مقیم تھے۔  تین دنوں بعد دہلی پہنچے۔ شیخ کے قبر کی زیارت کی اور ایصالِ ثواب کیا۔ قاضی حمید الدین ناگوری نے حضرت شیخ کی وصیت کے مطابق خرقہ آپ کو پیش کیا۔ یہ دراصل نیابت سونپنے کا طریقہ تھا۔ آپ نے دو رکعت نماز ادا کرکے اسے زیب تن کیا اور دہلی میں شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی نیابت سنبھالنے کیلئے بیٹھ گئے۔ لیکن دہلی کی ہنگامہ خیزی آپ کے مزاج کے خلاف تھی، نتیجتاً چند مہینوں بعد آپ دہلی کو خیر باد کہہ کر ہانسی کیلئے روانہ ہوگئے۔ یہاں کچھ دنوں قیام کیا، لیکن طبیعت میں کدورت پیدا ہونے لگی، آپ خلوت نشینی کو پسند فرماتے تھے لیکن دہلی کی مانند یہاں بھی عوام الناس کی کثرت  اور دیگر بعض عوامل کی وجہ سے  رخصت ہوکر کھوتوال پہنچے۔ یہاں آپ نے اپنے فیوض وبرکات سے عوام الناس کو خدائی پیغام سے روشناس کرایا اور انہیں دین مستقیم پر گامزن رہنے کی تلقین فرمائی۔ اخیر میں آپ پاکپٹن، اس زمانہ میں یہ علاقہ اجودھن کے نام سے مشہور تھا۔ آپ نے یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہیں رہتے ہوئے آپ نے مخلوقِ خدا کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ اسی دربار میں سلطان الاولیاء حضرت نظام الدین اولیاء اور شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری کی تربیت ہوئی۔ آپ کے زیر تربیت ان کے قلوب ایسے صیقل کئے گئے اور اتنے مجلی ہوئے کہ صدیوں بعد بھی ان کے انوار و برکات کی بارش خاصان خدا کیلئے جاری ہے۔ 

بابا فرید الدین گنج شکر کی صحرانوردی

شیخ بابا فرید الدین پر فقر غالب تھا۔ آپ اکثر وبیشتر فاقے کیا کرتے تھے۔ آپ جنگلات کے ایسے علاقوں میں قیام فرماتے جو موذی جانوروں سے گھرا رہا کرتا تھا۔ آپ ہمیشہ شہر کے شور شرابوں اور دنیاوی مشاغل سے دور رہتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر آپ نے گدڑی پہن لی ہے تو سمجھو سر پر کفن باندھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیشہ معمولی لباس زیبِ تن کرتے۔ کثرت سے روزے رکھتے۔ رات عبادتوں میں گزر جایا کرتی تھی اور دن روزوں میں۔ ظاہری دکھاوے اور متاع تعیش کی جانب بالکل التفات نہیں فرماتے۔ امراء و سلاطین کے تحائف قبول کرنے سے اعراض فرماتے۔ ایک مرتبہ سلطان ناصر الدین محمود اپنے پورے لشکر سمیت شیخ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ نائب السلطنت غیاث الدین بلبن نقد اور جاگیری کا فرمان لیکر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے دریافت کیا، یہ کیا ہے۔ انہوں نے دونوں چیزوں کی وضاحت کی۔ آپ نے نقد رقم کو غرباء و مساکین میں تقسیم کردیا اور جاگیری کا فرمان یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اس کے طالبین بہت مل جائیں گے۔ آپ اپنے شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور دادا پیر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہما (ان دونوں بزرگوں کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں) کی مانند سلاطین عالم کے دربار سے دور رہا کرتے تھے۔ 

گنج شکر کی وجہ تسمیہ 

بابا فرید الدین گنج شکر کے نام سے متعارف ہیں گنج شکر کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس سلسلہ  میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک مرتبہ شیخ بابا فرید الدین  نے شیخ کی اجازت سے ریاضت کا عمل شروع کیا۔ مسلسل تین دنوں تک بغیر کچھ کھائے ہوئے روزے رکھے۔ تین دنوں بعد جب بھوک کی شدت نے نڈھال کردیا اور ضعف طاری ہونے لگا تو آپ نے کنکری اٹھا کر منھ میں رکھ لی۔ اللہ نے اپنے کرم سے ان کنکریوں کو شکر سے تبدیل کردیا۔ 

ایک روایت یہ ہے کہ ایک سوداگر سے آپ نے شکر کا مطالبہ کیا۔ سوداگر نے جھوٹ کہہ دیا کہ شکر نہیں نمک ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں نمک ہی ہے۔ چنانچہ ساری شکر نمک میں بدل گئی۔ سوداگر کو پچھتاوا ہوا، اس نے معافی مانگی۔ آپ نے اللہ سے دعا کی، آپ کی دعا قبول ہوئی اور پھر شکر کی اصل شکل لوٹ آئی۔ اس کے بعد سے آپ گنج شکر کہے جانے لگے۔
شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے مشائخ چشت میں لکھا ہے کہ آپ کے شیخ نے مجاہدہ کرنے کا حکم دیا۔ تین دنوں بعد ایک شخص چند روٹی لیکر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے غیبی مدد سمجھ کر اسے نوش فرمایا۔ کچھ دیر بعد متلی آئی اور سب کچھ قے کے ذریعہ باہر آگیا۔ آپ نے صبح شیخ سے واقعہ بیان کیا۔ شیخ نے فرمایا کہ تین دنوں بعد کھائے بھی تو شرابی کے ہاتھوں سے۔ اب مزید تین دنوں تک مجاہدہ کرو۔ آپ نے روزے رکھے، تین دنوں بعد نقاہت نے نڈھال کردیا۔ بھوک کی شدت میں کنکریاں منھ میں ڈال لی، لیکن پھر اگل دیا، ایسا تین دفعہ کیا۔ بالآخر بھوک کی شدت سے مجبور ہوکر ان کنکریوں کو چبانے لگے، اور وہ شکر سے بدل گئی۔ صبح ہوکر شیخ سے پورا واقعہ بیان کیا۔ شیخ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا کہ اسے کھالیا۔ 

بابا فرید الدین گنج شکر کی شاعری

بلونت سنگھ آنند اپنی کتاب "ہندوستانی ادب کے معمار: بابا فرید” میں لکھتے ہیں: "بابا فرید عام لوگوں کی زبان یعنی ہندوی استعمال کرتے تھے، ہندوی جو کہ اردو اور ملتانی پنجابی کا سب سے ابتدائی روپ تھی، انہیں عام انسان کے قریب لانے کا ذریعہ بنی، علماء اور دیگر عہدےدار تو اپنے سبھی کام کام فارسی زبان میں کیا کرتے تھے، لیکن بابا فرید ان سے مختلف تھے، وہ اپنے سامعین سے اسی زبان میں مخاطب ہوا کرتے تھے جسے وہ بآسانی سمجھ سکیں اور جس سے وہ آشنا ہوں”۔بابا فرید الدین گنج شکر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "بابا فرید سب سے پہلے صوفی شاعر تھے، جب ان پر کیف کا عالم طاری ہوتا تو وہ پنجابی میں شعر کہتے، ان کے اشعار ایسے درد دل کا اظہار کرتے تھے جو عشق الہی سے بھرا ہوا تھا، بحیثیت شاعر انہیں ایسی زبان اور محاورے کی نشو و نما کرنی تھی جس میں وہ تصوف کے باریک و لطیف تصورات کو بیان کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی زبان کا عام فہم بھی ہونا ضروری تھا کیونکہ صوفیوں کا تخاطب خواص نہیں بلکہ عوام سے تھا”۔   بابا فرید الدین گنج شکر کی شاعری اور ادبی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "شاید وہ سب سے پہلے شاعر تھے جنہوں نے روحانی جستجو کے گیت عام انسان کی روز مرہ بولی میں گائے۔ انہوں نے دیہاتی ماحول کے تشبیہات اور استعارے بھی استعمال کئے جس کی وجہ سے ان کے اشعار لوگوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ ہم تصور کرسکتے ہیں کہ لوگ ان کے کلام کو مست ہوکر گاتے ہوں گے اور بےخود ہوجاتے ہوں گے”۔بابا فرید الدین گنج شکر کی روحانی شخصیت صرف مسلمانوں کے درمیان مسلم نہیں تھی بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے دکھ درد کا مداوا کرنے کے لئے ان کی مجالس و محافل میں شرکت کیا کرتے تھے۔ بابا فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں انہیں روحانی تسکین میسر ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بابا فرید الدین گنج شکر کی شخصیت سکھ مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بھی قابل احترام رہی ہے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب "گروگرنتھ صاحب” میں بابا فرید الدین گنج شکر کے اشعار بکثرت بیان کئے گئے ہیں۔ 

بلونت سنگھ آنند آگے لکھتے ہیں: "شیخ فرید کی شخصیت کے ایک سے زیادہ اہم پہلو ہیں، عظیم اور روشن خیال مصلح ہونے کے علاوہ مشہور صوفی اور ولی شیخ نظام الدین اولیا دہلوی کے وہ مرشد بھی تھے، جن کے آستانے پر صدیوں سے چھوٹے بڑے سر عقیدت خم کرتے رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر شیخ فرید نے اپنی مادری زبان میں جو شاعری کی تھی اس کا گرونانک اور ان کے جانشینوں نے مطالعہ کیا اور اسے گرنتھ صاحب میں جگہ دی، جو سکھوں کا مذہبی صحیفہ ہے، سکھ آج بھی ان کی شاعری کا احترام کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ گرنتھ صاحب میں شیخ فرید کے کلام کی شمولیت بین المذہبی خیر سگالی کی تاریخ کا عدیم المثال اور انتہائی اہم واقعہ ہے، جو انسانی زندگی میں مذہب کے راہنما قوت ہونے کا روشن خیال نظریہ پیش کرتا ہے۔ شیخ فرید کی شاعری میں عمیق روحانی بصیرت ہے جو اعلا ترین فطری شعری ذوق کی پیداوار ہے۔ اسی بنا پر ان کا کلام پنجابی بولنے والوں کے ثقافتی ورثے کا عزیز ترین حصہ بن گیا ہے”۔

وفات

مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان الاولیاء کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ محرم کی پانچ تاریخ کو بیماری میں شدت پیدا ہوئی۔ عشاء کی نماز جماعت سے ادا کی۔ نماز کے بعد بیہوشی طاری ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو نماز کے متعلق استفسار کیا، خدام نے بتایا کہ نماز پڑھ لی ہے۔ آپ نے پھر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد پھر بیہوشی طاری ہوگئی۔ کچھ وقفہ بعد ہوش آیا تو پھر نماز کے متعلق استفسار کیا۔ خدام نے بتایا کہ پڑھ لی ہے۔ اس رات آپ نے تین مرتبہ نماز ادا کی۔ یہ ذہنی ذہول کی وجہ سے ہوا تھا۔ اسی رات آپ دار فانی سے ہمیشہ ہمیش کیلئے محبوب حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ آپ کی وفات 5 محرم 664 ہجری ہے۔ آپ کا مزار پاکپٹن میں ہے۔ بعد کے زمانے میں سلطان محمد تغلق نے مزار پر گنبد تعمیر کروایا ہے۔ آپ کے فیوض وبرکات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، اور خلق خدا ان سے مستفید ہورہی ہے۔

 

 

Related Posts

9 thoughts on “شیخ بابا فرید الدین گنج شکر: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے